Wikipedia

खोज नतीजे

शनिवार, 18 अक्टूबर 2025

Superpowers and India-Taliban relations.


بھارت-طالبان تعلقات: پاکستان کی بے چینی اور جنوبی ایشیا کی بدلتی ہوئی جغرافیائی سیاست (2025)



(گریش بلوڑے مکل، آزاد مصنف و صحافی)

2021 میں طالبان کے اقتدار میں واپسی کے بعد سے جنوبی ایشیا کی جغرافیائی سیاست میں نئے مساوات ابھرے ہیں۔ بھارت نے طالبان حکومت کے ساتھ عملی مکالمہ قائم کرکے افغانستان میں اپنی پوزیشن کو مضبوط کیا ہے، جس سے پاکستان کے میڈیا اور فوجی اسٹیبلشمنٹ میں بے چینی واضح طور پر نظر آتی ہے۔ یہ مضمون بھارت-طالبان تعلقات، پاکستان کی "اسٹریٹجک ڈیپتھ" پالیسی، اور امریکہ، چین، روس جیسے عالمی کھلاڑیوں کے کردار کا تجزیہ کرتا ہے۔ اس کے ساتھ ہی یہ بھارت کی تاریخی اور اسٹریٹجک پالیسیوں پر روشنی ڈالتا ہے، جو 2025 میں عالمی سطح پر بحث کا موضوع بنی ہوئی ہیں۔

بھارت اور افغانستان: تاریخی اور ثقافتی تعلقات

بھارت اور افغانستان کے درمیان تعلقات قدیم ہڑپہ دور سے چلے آ رہے ہیں، جو ثقافتی، سماجی اور عوام سے عوام کے رابطوں میں گہرے ہیں۔

ثقافتی ورثہ: ربیندرناتھ ٹیگور کی کہانی کابلی والا (1892) بھارت اور افغانستان کے درمیان اعتماد اور محبت کا علامتی نمائندہ ہے، جو آج بھی دونوں ممالک کے درمیان ثقافتی رابطوں کی عکاسی کرتی ہے۔

ترقیاتی منصوبے: بھارت نے افغانستان کی تعمیر نو میں اہم کردار ادا کیا ہے:

سلمہ ڈیم (2016): ہرات صوبے میں تعمیر کردہ یہ ڈیم، جسے افغانستان-بھارت دوستی ڈیم کے نام سے جانا جاتا ہے، بجلی اور آبپاشی کی ضروریات پوری کرتا ہے۔

افغان پارلیمنٹ کی عمارت (2015): کابل میں تعمیر کردہ یہ عمارت افغانستان کی جمہوریت کے لیے بھارت کی حمایت کی علامت ہے۔

زرنج-دہلرام ہائی وے: اس نے افغانستان کو ایران کے چابہار بندرگاہ سے جوڑا، جس سے پاکستان پر اس کی انحصار کم ہوا۔

طالبان کے ساتھ بھارت کا عملی نقطہ نظر

2021 میں طالبان کی اقتدار میں واپسی کے بعد بھارت نے انسانی امداد اور سفارتی رابطوں کے ذریعے افغانستان کے ساتھ تعلقات برقرار رکھے۔ 2025 میں بھارت کی وزارت خارجہ نے خوراک، ادویات اور تعلیمی امداد جیسے شعبوں میں اپنی سرگرمیوں کو بڑھایا۔

اسٹریٹجک اہمیت: یہ اقدام نہ صرف افغانستان میں استحکام لانے کے لیے ہے بلکہ علاقائی جغرافیائی سیاست میں بھارت کی پوزیشن کو مضبوط کرنے کے لیے بھی ہے۔

افغان وزیر خارجہ کا بھارت کا دورہ (2024): اس دورے نے عالمی سطح پر طالبان کی بھارت کے تئیں بڑھتی ہوئی قبولیت کو اجاگر کیا، جس سے پاکستان کی بے چینی میں اضافہ ہوا۔

پاکستان کی "اسٹریٹجک ڈیپتھ" پالیسی اور بھارت کا خوف

1947 سے پاکستان افغانستان کو اپنی "اسٹریٹجک ڈیپتھ" کے طور پر دیکھتا ہے، یعنی بھارت کے خلاف ایک کنٹرول شدہ اور سازگار افغان حکومت۔

بھارت مخالف ایجنڈا: افغانستان میں بھارت کے بڑھتے کردار سے اس نقطہ نظر کو چیلنج ملتا ہے۔

پاکستانی میڈیا کا ردعمل: 2025 میں پاکستانی میڈیا نے بھارت-طالبان تعلقات کو "خطرناک" قرار دیتے ہوئے بھارت مخالف پروپیگنڈہ تیز کیا، جو اس کی مایوسی کا نتیجہ ہے۔

عالمی طاقتوں کا کردار: امریکہ، چین اور روس

امریکہ: امریکہ بگرام ایئر بیس تک رسائی چاہتا ہے، لیکن طالبان نے بھارت پر زیادہ بھروسہ کیا ہے۔ 2025 میں امریکی پالیسیاں پاکستان کو علاقے میں ایک اسٹریٹجک آلے کے طور پر استعمال کرتی رہتی ہیں۔

چین: چین افغانستان کے نایاب معدنیات اور اسٹریٹجک اہمیت سے متوجہ ہے، لیکن 2025 تک وہ "انتظار کرو اور دیکھو" کی پالیسی پر عمل پیرا ہے۔ سی پیک پر حملوں کی وجہ سے پاکستان پر اس کا بھروسہ کم ہوا ہے۔

روس: روس افغانستان میں محتاط ہے، کیونکہ اسے اپنی پرانی ناکامیوں اور معاشی بحرانوں کا سامنا ہے۔

پاکستان: امریکہ اور چین کا "اسٹریٹجک آلہ"؟

پاکستان نے خود کو اسلامی دنیا میں اسرائیل مخالف کے طور پر پیش کیا، لیکن یہ ایک اسٹریٹجک چال ہے۔

مثال: 2017 میں پاکستانی چینلز پر ڈونلڈ ٹرمپ کے اسرائیلی پارلیمنٹ کے خطاب کی براہ راست نشریات اس کی تصدیق کرتی ہیں۔

امریکی اثر و رسوخ: پاکستانی ایئر بیس پر امریکی فوج کی رسائی اور پینٹاگون کی پالیسیاں ظاہر کرتی ہیں کہ پاکستان امریکہ کا ایک اہم موہرہ ہے۔

چین کا کردار: بلوچستان اور سی پیک پر چینی شہریوں پر حملوں کے باوجود، چین پاکستان کو بھارت کے خلاف ایک آلے کے طور پر دیکھتا ہے۔

علاقائی استحکام اور بھارت کا کردار

طالبان کے ساتھ بھارت کا مکالمہ اس کی قدیم امن اور ہم آہنگی کی پالیسی کا حصہ ہے۔ ایک مستحکم افغانستان نہ صرف بھارت بلکہ پورے جنوبی ایشیا کے مفاد میں ہے۔ تجزیہ کار دو امکانات کی نشاندہی کرتے ہیں:

اکھنڈ بھارت کا تصور: ثقافتی اور معاشی اتحاد کے ذریعے علاقائی استحکام۔

پاکستان کا ٹوٹنا: کچھ ماہرین سمجھتے ہیں کہ پاکستان کا موجودہ ڈھانچہ ہی علاقائی عدم استحکام کی جڑ ہے۔

2025 میں بھارت کی افغان پالیسی نے نہ صرف طالبان کے ساتھ تعلقات کو مضبوط کیا بلکہ عالمی سطح پر بھارت کو ایک ذمہ دار اور متوازن طاقت کے طور پر بھی قائم کیا۔

India-Taliban Relations: Pakistan's Unease and the Shifting Geopolitics of South Asia 2025

 


(Girish Billore Mukul, Independent Writer and Journalist)

Since the Taliban's return to power in 2021, new geopolitical equations have emerged in South Asia. India has strengthened its position in Afghanistan by establishing pragmatic dialogue with the Taliban regime, causing visible unease in Pakistan's media and military establishment. This article analyzes India-Taliban relations, Pakistan's "strategic depth" policy, and the roles of global players like the United States, China, and Russia. It also highlights India's historical and strategic policies, which remain a topic of discussion on the global stage in 2025.

India and Afghanistan: Historical and Cultural Ties

The relationship between India and Afghanistan dates back to the ancient Harappan era, deeply rooted in cultural, social, and people-to-people connections.

Cultural Heritage: Rabindranath Tagore’s story Kabuliwala (1892) symbolizes the bond of trust and affection between India and Afghanistan, a connection that continues to reflect their cultural ties.

Development Projects: India has made significant contributions to Afghanistan’s reconstruction:

Salma Dam (2016): Built in Herat province, also known as the Afghanistan-India Friendship Dam, it addresses electricity and irrigation needs.

Afghan Parliament Building (2015): Constructed in Kabul, it symbolizes India’s support for Afghanistan’s democracy.

Zaranj-Delaram Highway: This connects Afghanistan to Iran’s Chabahar port, reducing Afghanistan’s dependence on Pakistan.

India’s Pragmatic Approach to the Taliban

Since the Taliban’s return to power in 2021, India has maintained relations through humanitarian aid and diplomatic engagement. In 2025, India’s Ministry of External Affairs has increased its focus on food, medicine, and educational assistance for the Afghan people.

Strategic Importance: This approach not only aims to bring stability to Afghanistan but also strengthens India’s position in regional geopolitics.

Afghan Foreign Minister’s Visit to India (2024): This visit highlighted the Taliban’s growing acceptance of India on the global stage, further fueling Pakistan’s unease.

Pakistan’s "Strategic Depth" Policy and India’s Concerns

Since 1947, Pakistan has viewed Afghanistan as its "strategic depth," seeking a controlled and favorable Afghan government to counter India.

Anti-India Agenda: India’s growing role in Afghanistan challenges this vision.

Pakistani Media’s Reaction: In 2025, Pakistani media labeled India-Taliban relations as "dangerous," intensifying anti-India propaganda, reflecting Pakistan’s frustration.

Role of Global Powers: USA, China, and Russia

United States: The U.S. seeks access to the Bagram Airbase, but the Taliban has shown greater trust in India. In 2025, U.S. policies continue to use Pakistan as a strategic tool in the region.

China: Attracted by Afghanistan’s rare earth minerals and strategic importance, China has adopted a "wait and watch" approach by 2025. Its trust in Pakistan has waned due to attacks on CPEC projects.

Russia: Russia remains cautious in Afghanistan, grappling with its past failures and economic challenges.

Pakistan: A Strategic Tool for the U.S. and China?

Pakistan portrays itself as an anti-Israel voice in the Islamic world, but this is seen as a strategic maneuver.

Example: In 2017, Pakistani channels broadcast Donald Trump’s speech to the Israeli parliament live, confirming this posturing.

U.S. Influence: U.S. military access to Pakistani airbases and Pentagon policies indicate Pakistan’s role as a key U.S. ally.

China’s Role: Despite attacks on Chinese citizens in Balochistan and CPEC, China views Pakistan as a tool against India.

Regional Stability and India’s Role

India’s dialogue with the Taliban aligns with its ancient policy of peace and coexistence. A stable Afghanistan is in the interest of not only India but the entire South Asian region. Analysts suggest two possibilities for regional stability:

Concept of Akhand Bharat: Regional stability through cultural and economic unity.

Fragmentation of Pakistan: Some experts believe Pakistan’s current structure is the root of regional instability.

In 2025, India’s Afghan policy has not only strengthened ties with the Taliban but also established India as a responsible and balanced global power.

सोमवार, 6 अक्टूबर 2025

भारत में ड्रग माफिया पर लगाम: अमानक दवाओं और स्वास्थ्य जोखिमों का बढ़ता संकट

भारत में ड्रग माफिया पर लगाम: अमानक दवाओं और स्वास्थ्य जोखिमों का बढ़ता संकट

(आलेख एवं प्रस्तुति गिरीश बिल्लौरे मुकुल)

घटनाक्रम
  तमिलनाडु में बने दवा उत्पादक यूनिट में बने कोल्ड्रिफ कफ़ सिरप जिसमें  48.6% तक जहरीला रसायन डायएथिलीन ग्लाइकॉल (Diethylene Glycol) पाया गया। बच्चे सर्दी-खांसी के इलाज के लिए डॉक्टर द्वारा निर्धारित दवा लेने के बाद किडनी फेल हो गई।
मीडिया रिपोर्ट्स के अनुसार, भारत में कफ़ सिरप से  18 बच्चों की मौत हुई है।
मध्य प्रदेश (मुख्यतः छिंदवाड़ा): 14 मौतें (जिनमें से अधिकांश परासिया ब्लॉक में, उम्र 1-5 वर्ष)। राजस्थान: 4 मौतें (सीकर में 1, भरतपुर में 2, चुरू में 1)।
लचर एवं अपर्याप्त सरकारी कार्रवाई   
    भारत में ड्रग माफिया का विस्तार अमेरिका की तर्ज पर तेजी से हो रहा है, जो न केवल देश के लिए बल्कि वैश्विक स्तर पर भी एक गंभीर चुनौती बनता जा रहा है। अमेरिका में ड्रग माफिया अमेरिकी प्रशासन पर हावी अवश्य है परंतु प्रशासन भी उसकी गुणवत्ता को लेकर किसी भी प्रकार का समझौता नहीं करता है।
भारत में इससे उलट स्थित है!
    मध्य प्रदेश, तमिलनाडु, केरल और गुजरात सरकारों ने सिरप की बिक्री पर बैन लगा दिया।
एक डॉक्टर  गिरफ्तार, कंपनी के खिलाफ FIR दर्ज।केंद्रीय औषधि मानक नियंत्रण संगठन (CDSCO) ने 6 राज्यों में 19 दवाओं की मैन्युफैक्चरिंग यूनिट्स का निरीक्षण शुरू किया।
SIT (विशेष जांच दल) गठित।
जबलपुर में दवा वितरण करने वाली इकाई पर कार्रवाई  की गई है।
दूसरी ओर  केंद्र सरकार और तमिलनाडु सरकार की ओर से केवल कागजी घोड़े संबंधित कंपनी को रवाना कर दिए गए हैं । क्या यह पर्याप्त है ?
    भारत में उत्पादित दवाएं पहले भी हो चुकी है बदनाम
  बिना किसी पूर्वाग्रह के यह स्वीकार कर लेना चाहिए कि - भारतीय फार्मा उद्योग पहले भी कई देशों में कुछ मामलों  में बदनाम हो चुका है। और भारत सरकार, तथा राज्य सरकारों  ने कोई प्रभावी अथवा कारगर कार्रवाई नहीं की है ।  यूरोपीय संघ ने कुछ मामलों में भारतीय दवाओं पर रासायनिक अशुद्धियों (जैसे NDMA कैंसरजन्य पदार्थ) के कारण रिकॉल या बिक्री निलंबन, की गई थी । यह अलग बात है कि  पूर्ण प्रतिबंध नहीं लगाया गया । 2018-2020 में वैल्सार्टन जैसी दवाओं में समस्या पाई गई।
2022 के कफ सीरप  भारत में निर्मित सिरप से विदेशों में 70 से 85 बच्चों की मृत्यु हुई थी जिसमें गाम्बिया 66-70 मौतें,  उज्बेकिस्तान 18-19 मौतें,  हुईं थीं। डायएथिलीन ग्लाइकॉल ही कारण था।भारत में भी कुछ मौतें (मुंबई, जम्मू-कश्मीर) हुईं, लेकिन सटीक संख्या कम थी।
विश्व में  नकली दवाओं का कारोबार
विश्व स्वास्थ्य संगठन के अनुसार, नकली दवाओं का वैश्विक बाजार $200 बिलियन का है, जिसमें भारत की हिस्सेदारी उल्लेखनीय है। हालांकि, ये प्रतिबंध विशिष्ट हैं, न कि सभी भारतीय दवाओं पर।
अमानक दवाओं का उत्पादन,
कफ सिरप जैसे उत्पादों से बच्चों की मौत, और आयुर्वेदिक व एलोपैथिक दवाओं के बीच बढ़ता संघर्ष इस समस्या को और जटिल बना रहा है। सरकार और प्रशासनिक इकाइयों को इस दिशा में ठोस कदम उठाने की आवश्यकता है। इस लेख में हम ड्रग माफिया के बढ़ते प्रभाव, अमानक दवाओं के खतरे, और इनसे निपटने के उपायों पर चर्चा करेंगे।
अमानक दवाओं के खतरों से कैसे निपटें
भारत में ड्रग माफिया का नेटवर्क तेजी से फैल रहा है। नशीली दवाओं और अमानक दवाइयों का उत्पादन और वितरण न केवल स्वास्थ्य के लिए खतरा है, बल्कि सामाजिक और आर्थिक संरचना को भी कमजोर कर रहा है। हाल के वर्षों में, कफ सिरप जैसे सामान्य उत्पादों के कारण बच्चों की मृत्यु की घटनाएं सामने आई हैं, जो स्वास्थ्य सेवाओं और नियामक तंत्र की विफलता को दर्शाती हैं।
भारत में अमानक और नकली दवाओं का बाजार फल-फूल रहा है। विश्व स्वास्थ्य संगठन के अनुसार, वैश्विक स्तर पर नकली दवाओं का बाजार 200 अरब डॉलर से अधिक का है, जिसमें भारत की हिस्सेदारी भी काफी है। अमानक दवाएं न केवल उपभोक्ताओं के स्वास्थ्य को जोखिम में डालती हैं, बल्कि चिकित्सा क्षेत्र में विश्वास को भी कम करती हैं। कफ सिरप से जुड़ी हालिया घटनाएं इसका जीवंत उदाहरण हैं, जहां बच्चों की जान जोखिम में पड़ रही है।
प्रशासनिक लापरवाही और नियामक कमियां
अमानक दवाओं के उत्पादन को रोकने के लिए प्रशासनिक और नियामक व्यवस्था में सुधार की जरूरत है। कई मामलों में, दवा उत्पादन इकाइयों की निगरानी में ढिलाई और भ्रष्टाचार की वजह से नकली और अमानक दवाएं बाजार में पहुंच रही हैं। केंद्रीय औषधि मानक नियंत्रण संगठन  और राज्य स्तरीय दवा नियामक निकायों को और सख्ती से काम करने की आवश्यकता है।
एलोपैथी बनाम आयुर्वेद के मध्य अनावश्यक संघर्ष
भारत में आयुर्वेदिक और एलोपैथिक दवाओं के बीच एक कृत्रिम संघर्ष बनाया जा रहा है। आयुर्वेदिक दवाओं के प्रति नकारात्मक माहौल बनाकर कुछ कंपनियां और संगठन अपने हित साध रहे हैं। मौसमी बीमारियों जैसे खांसी, जुकाम, और बुखार के इलाज में आयुर्वेदिक उपचार प्रभावी हो सकते हैं, लेकिन एलोपैथिक दवाओं की आक्रामक मार्केटिंग ने इनका महत्व कम कर दिया है। इससे सामान्य बीमारियों का इलाज भी महंगा और जोखिम भरा हो गया है।
इंडियन मेडिकल एसोसिएशन (IMA) को इस मामले में जिम्मेदारी लेते हुए दवा कंपनियों की आक्रामक मार्केटिंग और अमानक दवाओं के खिलाफ आवाज उठानी चाहिए। IMA को उपभोक्ता हितों की रक्षा और आयुर्वेदिक व एलोपैथिक चिकित्सा के बीच संतुलन स्थापित करने में महत्वपूर्ण भूमिका निभानी चाहिए।
वर्तमान परिस्थितियों को देखते हुए यश भारत के कुछ सुझाव केंद्र एवं राज्य सरकारों  के लिए सकारात्मक साबित हो सकते हैं -
सख्त नियामक नीति की बहुत आवश्यकता है। दवा उत्पादन और वितरण की प्रक्रिया में पारदर्शिता और जवाबदेही सुनिश्चित करने के लिए सख्त नियम लागू किए जाएं।
दवा उत्पादन इकाइयों की नियमित जांच और कठोर लाइसेंसिंग प्रक्रिया लागू की जाए।
उपभोक्ताओं को नकली और अमानक दवाओं के प्रति जागरूक करने के लिए राष्ट्रीय स्तर पर अभियान चलाए जाएं।
दोनों चिकित्सा पद्धतियों के बीच सहयोग को बढ़ावा दिया जाए ताकि मरीजों को किफायती और सुरक्षित इलाज मिल सके।
इलाज से बेहतर है ऐतियात के सिद्धांत पर काम करते हुए हमें गर्भवती महिलाओं और बच्चों के लिए सतर्क रहना बहुत जरूरी है। बच्चों के इम्युनिटी पावर को मजबूत करने के लिए प्राकृतिक रूप से मिलने वाले माइक्रोन्यूट्रिएंट्स युक्त खाद्य पदार्थ का उपयोग करना बहुत जरूरी है। ताकि वे मौसमी बदलाव और वातावरण में व्याप्त विषाणुओं के प्रभाव से बच सकें।
  नशीली और अमानक दवाओं के कारोबार पर कठोर कार्रवाई के लिए विशेष टास्क फोर्स गठित की जाए।
      भारत में ड्रग माफिया और अमानक दवाओं का बढ़ता संकट एक गंभीर समस्या है, जिस पर तत्काल ध्यान देने की जरूरत है। सरकार, प्रशासन, और चिकित्सा संगठनों को मिलकर इस दिशा में ठोस कदम उठाने होंगे। उपभोक्ता हितों की रक्षा, दवा उत्पादन में पारदर्शिता, और आयुर्वेदिक व एलोपैथिक चिकित्सा के बीच सामंजस्य स्थापित करके ही हम इस समस्या से निपट सकते हैं।

शनिवार, 27 सितंबर 2025

The Ramayana Era is Not Myth but History...!

 The Ramayana Era is Not Myth but History...!

In Indian historiography, Ram and Krishna are often absent because leftist historians argue that there is no authentic evidence related to the lives of Shri Ram and Shri Krishna. Neither inscriptions nor scripts have been found to substantiate the existence of these two historical figures. However, intelligent historians have completely ignored the astronomical facts provided in Indian Sanskrit texts. They are bound to consider Lord Shri Ram and Shri Krishna as myths due to their intellectual constraints.

In this regard, I present my perspective with certain assumptions:

First Assumption:

Around 100 scholars are working on this subject. People believe that the historical events described in texts like the Ramayana and Mahabharata have not been evaluated based on the astronomical configurations mentioned in them. Neither the government nor academic institutions have paid attention to or supported the research of these scholars. Two prominent scholars, Shri Ved Veer Arya and Shri Nilesh Nilkanth Oak, are confirming the historicity of the Ramayana and Mahabharata eras based on astronomical evidence.

Second Assumption:

It is essential to note that the history of the Ramayana era was passed down through oral tradition to succeeding generations by scholars or family elders as a legacy. Due to such traditions, the story of Ram became a narrative. However, oral tradition has a flaw: when we hear something, we cannot always convey it exactly as it was. This is similar to the children's game of "telephone," where a word or sentence is whispered from one child to another, and by the time it reaches the end, its original meaning is often lost. Similarly, during administrative training, we are advised not to fully trust hearsay.

As a result, due to this oral or Shruti-based tradition, those who sought to label the Ramayana and Mahabharata as myths succeeded in portraying them as fictional narratives. While there is a distinction between literature and history, the various versions of the Ramayana written across India, Thailand, Cambodia, Java, Sumatra, Kampuchea, Bali, and Suriname are remarkably consistent. Therefore, I urge that oral or Shruti-based traditions should not be dismissed as mere imagination. If you accept this, you must also acknowledge that Shri Ram led a life dedicated to public welfare.

Third Assumption:

The absence of physical evidence does not prove that an event never occurred. Post-independence, scholars and historians have maintained that only events with physical proof can be considered history. However, this is not the case in science. Scientists have identified the timeline of Earth's formation, yet in the absence of physical evidence, Indian civilization, culture, and continuity are deemed nonexistent. Failing to determine the timeline of Indian civilization and culture in the absence of physical evidence is neither just nor logically sound; rather, it reflects the intellectual bias of historians.

Fourth Assumption:

Ignoring the astronomical configurations in the Ramayana and Mahabharata and limiting Indian civilization to a mere 4,500-year timeline is a conspiracy to mislead students of history. Dear readers, both Lord Shri Ram and Lord Shri Krishna were historical figures whose contributions to public welfare demonstrate that they were divine incarnations.

Fifth Assumption:

Scholars believe that paper was invented in 201 BCE during the Han Dynasty. However, in India, writing began during the Indus Valley Civilization. Due to the difficulty of writing on materials like birch bark, stone, or leather, oral tradition was prioritized. The advent of paper brought revolutionary changes to writing practices. Based on the above, it is clear that there is a suspicious motive behind efforts to disprove the existence of Shri Ram and Shri Krishna.

The Ramayana is Not Just a Story but History:

We are discussing the Ramayana here. The story of Ram, through oral tradition, spread among the masses. The tale of Emperor Ram, the most revered and disciplined ruler, was celebrated for his adherence to ethical governance and socio-economic principles, earning him the status of a divine incarnation. In my view, Shri Ram was a great statesman who had no enemies. You may wonder why Ram, who had no enemies, killed Ravana. The reason was Ravana's tyranny. He had held Kubera, the deity of global wealth, captive and forced sages, artists (Gandharvas), economists, and physicians to work solely for his empire.


**Shri Ram’s Social and Political System:**

Shri Ram was a strategist, social scientist, politician, and protector of his people. He set high standards for social harmony. One significant fact is that Shri Ram emphasized a democratic monarchy. In Sanatan culture, a king was bound to uphold democratic values and ethical policies. For example, a king was allowed only four hours of sleep and was required to wake up during Brahma Muhurta. The king was the guardian of his people's interests before his own family's, as per Sanatan principles.


Some overly rational thinkers question Sita’s exile. As mentioned earlier, in the Sanatan system, a king had no personal rights; his actions were guided by the welfare of his people. Sending Sita back to the forest was a necessity for King Ram to maintain his integrity in the eyes of his subjects, even though it was personally unacceptable to him as Maryada Purushottam (the epitome of righteousness).


Ram as an Evaluator of Merit:

For his father’s shradh (ritual), Ram invited the most qualified priest, who was none other than Ravana. The event of Ram’s remorse after slaying Ravana proves that, as a human, he was not unaffected by the violent acts required by statecraft. Ravana was not a ten-headed monster but a learned Brahmin who adhered to discipline, such as not touching a woman against her will and maintaining devotion to God. Knowing Ravana’s scholarly stature, Ram performed a year-long penance in the Himalayas after his death, entrusting the kingdom to Lakshman and his other brothers.


Ram’s Organizational Skills:

During his 14-year exile, Ram sowed the seeds of public welfare. He lived among villagers and forest-dwellers, while Sita educated tribal women in social and self-welfare. Lakshman exemplified loyalty to his brother through his actions. Ram’s greatest achievement was uniting forest-dwellers, training them militarily, and forming a vast army essential for the conquest of Lanka. This demonstrates Ram’s exceptional strategic and organizational skills.


The above account makes it clear that no one becomes revered without contributing to public welfare. As Emperor Shri Ram, he worked as a divine incarnation and remains our revered deity.


Leftist historians and literary scholars who rely on cultural studies believe the Ramayana is merely a folk tale. However, we believe that Lord Shri Ram and Shri Krishna are historical figures. If historians claim that Shri Ram was never born, they are mistaken.


I hail from Madhya Pradesh, where the concept of the Narmada Man has been scientifically validated. Scholars like Shri Wakankar have shown that the civilization initiated by the Narmada Man developed around 75,000 years ago. This means even cave-dwellers had their own civilization. While resources may have been scarce, the process of civilization began with communal living.


Thus, Indian civilization did not develop parallel to the Indus Valley or Harappan civilizations but predates them. Regarding the Indus Valley Civilization, I assert that its decline may have occurred 1,500 years before its documented timeline, but its development likely began 10,000 to 15,000 years earlier. This is significant because, in resource-scarce conditions, progress would have been slow. The Harappan civilization, in its final phase, likely evolved over thousands of years.


Girish Billore "Mukul"

रविवार, 7 सितंबर 2025

पीटर नवारो को क्या मालूम भारतीय ब्राह्मण वणिकों में फर्क: अमेरिकी पप्पू है



 हाल ही में अमेरिकी राष्ट्रपति डोनाल्ड ट्रंप के पूर्व व्यापार सलाहकार पीटर नवारो ने भारत पर रूस से तेल खरीदने और यूक्रेन युद्ध को बढ़ावा देने के आरोप लगाकर वैश्विक सुर्खियाँ बटोरीं। उनकी टिप्पणियों, विशेष रूप से भारत के "ब्राह्मणों" को रूसी तेल से मुनाफाखोरी का दोषी ठहराने वाले बयान, ने न केवल भारत में विवाद खड़ा किया, बल्कि अमेरिका-भारत संबंधों में तनाव को भी बढ़ाया। भारत के विदेश मंत्रालय ने इन बयानों को "गलत और भ्रामक" बताकर खारिज कर दिया। इस बीच, एलन मस्क के स्वामित्व वाले X प्लेटफॉर्म पर नवारो की पोस्ट को फैक्ट-चेक किया गया, जिसमें भारत के तेल आयात को ऊर्जा सुरक्षा से जोड़ा गया, न कि मुनाफाखोरी से। इससे नाराज नवारो ने मस्क पर "प्रोपेगैंडा" फैलाने का आरोप लगाया।


यह लेख कोल्ड वॉर के दौरान अमेरिकी नीतियों और यूक्रेन युद्ध में हताहतों के आंकड़ों के संदर्भ में नवारो के बयानों का विश्लेषण करता है, और यह बताता है कि उनकी टिप्पणियाँ ऐतिहासिक तथ्यों और वर्तमान भू-राजनीतिक जटिलताओं को समझने में उनकी कमी को दर्शाती हैं।


कोल्ड वॉर और अमेरिकी भागीदारी: हताहतों की भारी कीमत


कोल्ड वॉर (1947-1991) के दौरान अमेरिका और सोवियत संघ के बीच वैचारिक और प्रॉक्सी युद्धों ने विश्व भर में लाखों लोगों की जान ली। कोरियाई युद्ध (1950-1953) और वियतनाम युद्ध (1954-1975) जैसे प्रमुख संघर्षों में अमेरिकी भागीदारी से भारी नुकसान हुआ:


अमेरिकी सैन्य हताहत: लगभग 95,000 अमेरिकी सैनिक मारे गए, जिसमें कोरियाई युद्ध में 36,574 और वियतनाम युद्ध में 58,220 मौतें शामिल हैं।


कुल हताहत: इन युद्धों में 3-5 मिलियन लोग मारे गए, जिसमें नागरिक और सैन्य हताहत शामिल हैं। हालांकि, ये सभी मौतें केवल अमेरिकी कार्रवाइयों के कारण नहीं थीं, क्योंकि सोवियत संघ और अन्य देशों की भी भूमिका थी।


प्रॉक्सी युद्धों की जटिलता: सटीक आंकड़ों की कमी और प्रॉक्सी युद्धों की प्रकृति के कारण हताहतों की संख्या अनिश्चित बनी हुई है।


कोल्ड वॉर में अमेरिका ने न केवल सैन्य बल्कि वैचारिक और आर्थिक प्रभाव का भी उपयोग किया, जिसके परिणामस्वरूप कई देशों में दीर्घकालिक अस्थिरता पैदा हुई। नवारो जैसे लोग, जो आज भी आक्रामक बयानबाजी करते हैं, ऐतिहासिक संदर्भों को नजरअंदाज करते हुए वैश्विक तनाव को बढ़ा रहे हैं।


यूक्रेन युद्ध: हताहतों का अनुमान


यूक्रेन-रूस युद्ध, जो 2014 में शुरू हुआ और 2022 में रूसी आक्रमण के बाद और तेज हुआ, ने भारी मानवीय क्षति पहुँचाई है। विभिन्न स्रोतों के आधार पर हताहतों का अनुमान निम्नलिखित है:


2014-2022 (क्रीमिया और डोनबास): लगभग 14,200-14,400 मौतें, जिनमें 3,404 नागरिक, 4,400 यूक्रेनी सैनिक, और 6,500 रूस समर्थक अलगाववादी शामिल हैं।


2022 रूसी आक्रमण: संयुक्त राष्ट्र के अनुसार, 2022 से 2024 तक 30,457 नागरिक हताहत हुए, जिनमें 10,582 मारे गए और 19,875 घायल हुए।


रूसी सैन्य हताहत: यूक्रेनी दावों के अनुसार 50,000 से 6,00,000 रूसी सैनिक मारे गए, जबकि बीबीसी और मेडियाज़ोना ने 50,000 मौतों की पुष्टि की।


यूक्रेनी सैन्य हताहत: सटीक आंकड़े अस्पष्ट हैं, लेकिन हजारों में होने का अनुमान है।


कुल हताहत: 2014 से 2025 तक 60,000 से 1,00,000 लोग मारे गए, और लाखों लोग विस्थापित हुए।


यूक्रेन युद्ध की जटिलता और अमेरिका जैसे पश्चिमी देशों की भूमिका को देखते हुए, नवारो का भारत को "यूक्रेन युद्ध को बढ़ावा देने" का दोषी ठहराना न केवल तथ्यात्मक रूप से गलत है, बल्कि भू-राजनीतिक अज्ञानता को भी दर्शाता है।


नवारो का भारत पर हमला: तथ्यों से परे बयानबाजी


पीटर नवारो ने भारत पर रूस से तेल खरीदने और "ब्राह्मणों" द्वारा मुनाफाखोरी का आरोप लगाया, जिसे भारत ने खारिज कर दिया। उनके बयानों में कई खामियाँ हैं:


सांस्कृतिक अज्ञानता: नवारो ने "ब्राह्मणों" को मुनाफाखोरी से जोड़ा, जबकि भारत में व्यापार और व्यवसाय मुख्य रूप से वैश्य समुदाय से जुड़ा है। यह उनकी भारतीय सामाजिक संरचना के प्रति अज्ञानता को दर्शाता है।


तथ्यात्मक गलतियाँ: भारत का रूस से तेल खरीदना ऊर्जा सुरक्षा और अपने 140 करोड़ नागरिकों के आर्थिक हितों के लिए है, न कि मुनाफाखोरी के लिए। X पर कम्युनिटी नोट्स ने भी इसकी पुष्टि की।


विवादास्पद बयान: नवारो ने भारत को "क्रेमलिन की मनी लॉन्ड्रिंग मशीन" और यूक्रेन युद्ध को "मोदी का युद्ध" कहा, जिससे भारत-अमेरिका संबंधों में तनाव बढ़ा।


राजनीतिक विवाद: भारत में कांग्रेस नेता उदित राज ने नवारो के "ब्राह्मण" बयान का समर्थन किया, जिससे देश में नया राजनीतिक विवाद खड़ा हो गया।


नवारो की बयानबाजी और डोनाल्ड ट्रंप की छवि


नवारो की टिप्पणियाँ न केवल भारत-अमेरिका संबंधों को नुकसान पहुँचा रही हैं, बल्कि डोनाल्ड ट्रंप की छवि पर भी सवाल उठा रही हैं। अब्राहम लिंकन के समय के अमेरिकी मूल्यों, जैसे कूटनीति और सहयोग, को नवारो जैसे लोग अपनी आक्रामक बयानबाजी से कमजोर कर रहे हैं। यदि नवारो को कोल्ड वॉर और यूक्रेन युद्ध के ऐतिहासिक और वर्तमान संदर्भों की समझ होती, तो शायद उनकी पोस्ट को X पर बार-बार फैक्ट-चेक का सामना न करना पड़ता।


#PeterNavarro #ColdWar #UkraineWar #IndiaRussiaRelations #DonaldTrump #USForeignPolicy #FactCheck #EnergySecurity #GeoPolitics #IndiaUSRelations #BrahminControversy #UditRaj #ElonMusk #XPlatform

गुरुवार, 17 जुलाई 2025

उषा देवी मित्रा - स्वानुशासित नारीवादी लेखिका

उषा देवी मित्रा, हिंदी और बांग्ला साहित्य की प्रख्यात लेखिका, जिन्होंने नारी मुक्ति, सामाजिक सुधार, और भारतीय संस्कृति को अपनी रचनाओं में संवेदनशीलता से चित्रित किया। उनकी कहानियाँ और उपन्यास जैसे ‘प्यासी हूँ’ और ‘सम्मोहिता’ नारी जीवन की जटिलताओं को दर्शाते हैं।
उषा देवी मित्रा का जीवन परिचय
1897 में जबलपुर में जन्मी उषा देवी मित्रा हिंदी और बांग्ला साहित्य की एक ऐसी लेखिका थीं, जिन्होंने अपनी रचनाओं के माध्यम से नारी जीवन की पीड़ा, संघर्ष, और आकांक्षाओं को यथार्थवादी ढंग से प्रस्तुत किया। उनकी लेखनी यूरोपीय नारी मुक्ति आंदोलन की फूहड़ता से अप्रभावित रही, और उन्होंने भारतीय सांस्कृतिक मूल्यों को सम्मान देते हुए नारी सशक्तीकरण का स्वर बुलंद किया।
उनकी प्रमुख रचनाएँ जैसे ‘प्यासी हूँ..!’, ‘सम्मोहिता’, और ‘सांध्य पूर्वी’ में नारी जीवन की जटिलताओं को संवेदनशीलता के साथ चित्रित करती हैं। उनकी कहानियों और उपन्यासों ने द्विवेदी युग की साहित्यिक धारा को समृद्ध किया और सामाजिक सुधार के प्रति उनकी प्रतिबद्धता को दर्शाया गया है।
साहित्यिक और सामाजिक योगदान
उषा देवी मित्रा ने न केवल साहित्य के क्षेत्र में योगदान दिया, बल्कि सामाजिक सुधार के लिए भी महत्वपूर्ण कार्य किए। उन्होंने नारी मंडल समिति की स्थापना की, जिसके माध्यम से महिलाओं के उत्थान और सशक्तीकरण के लिए प्रयास किए। उनकी रचनाएँ सामाजिक रूढ़ियों पर प्रहार करती हैं और नारी मुक्ति के स्वदेशी स्वर को उजागर करती हैं।
उनकी प्रमुख कृतियों में शामिल हैं:
उपन्यास: वचन का मोल, प्रिया, नष्ट नीड़, जीवन की मुस्कान, सोहनी, सम्मोहिता।
कहानी संग्रह: आँधी के छंद, महावर, नीम चमेली, मेघ मल्लार, रागिनी, सांध्य पूर्वी, रात की रानी।
प्रकाशन: उनकी रचनाएँ प्रवासी, भारतवर्ष, वसुमती, और पंचपुष्प जैसी पत्रिकाओं में प्रकाशित हुईं।
उनकी कहानी ‘सांध्य पूर्वी’ को सेकसरिया पुरस्कार से सम्मानित किया गया, और मध्य प्रदेश हिंदी साहित्य सम्मेलन के जबलपुर अधिवेशन में तत्कालीन मुख्यमंत्री द्वारिकाप्रसाद मिश्र ने उनकी साहित्यिक सेवाओं के लिए अभिनंदन किया।

   पारिवारिक और शैक्षिक पृष्ठभूमि
उषा देवी मित्रा का जन्म 1897 में एक बौद्धिक और साहित्यिक परिवार में हुआ। उनके पिता हरिश्चंद्र दत्त एक प्रख्यात वकील और हिंदी, अंग्रेजी, उर्दू के विद्वान थे, जो शिकार साहित्य के रचनाकार भी थे।
 उनके मामा सत्येंद्र नाथ दत्त बांग्ला के प्रसिद्ध लेखक थे, और उनके दादा रवींद्रनाथ ठाकुर विश्वविख्यात साहित्यकार थे। इस साहित्यिक माहौल ने उनकी रचनात्मकता को गहराई प्रदान की।
उषा जी की प्रारंभिक शिक्षा जबलपुर में हुई। 12-14 वर्ष की आयु में उनका विवाह क्षितिश्चंद्र मित्र से हुआ, जो एक विद्युत अभियंता थे। पति, पुत्र, बहन, और भाई के असामयिक निधन जैसी व्यक्तिगत त्रासदियों ने उनकी लेखनी को संवेदनशीलता और गहराई दी। पति के निधन के बाद वे शांतिनिकेतन गईं, जहाँ उन्होंने संस्कृत में विशेषज्ञता प्राप्त की और रवींद्रनाथ ठाकुर के मार्गदर्शन में अपनी साहित्यिक दृष्टि को समृद्ध किया।
उषा देवी मित्र का निधन 19 सितंबर 1967 को हुआ। 
नारीवादी लेखन में मौलिकता
उषा देवी मित्रा का लेखन यूरोपीय नारी मुक्ति आंदोलन से प्रभावित होने के बजाय भारतीय सांस्कृतिक निरंतरता और सामाजिक यथार्थवाद पर आधारित था। उनकी कहानी ‘प्यासी हूँ..!’ नारी की आंतरिक पीड़ा और आकांक्षाओं को दर्शाती है, जबकि ‘सम्मोहिता’ और ‘दीक्षिता’ जैसी रचनाएँ रवींद्रनाथ ठाकुर और सत्येंद्र नाथ दत्त द्वारा सराही गईं। उनकी रचनाएँ नारी जीवन की शारीरिक और मानसिक पीड़ा को संवेदनशीलता के साथ प्रस्तुत करती हैं।
पुरस्कार और सम्मान
उषा देवी मित्रा की साहित्यिक उपलब्धियों को कई सम्मानों से नवाजा गया:
सेकसरिया पुरस्कार: उनकी कहानी ‘सांध्य पूर्वी’ के लिए।
मध्य प्रदेश हिंदी साहित्य सम्मेलन: जबलपुर अधिवेशन में अभिनंदन।
जबलपुर उन्हें याद रखना है  
उनकी स्मृतियों को सतत अविस्मरणीय बनाने श्रीमती साधना उपाध्याय संस्थापक त्रिवेणी परिषद जबलपुर द्वारा प्रतिवर्ष अहिंदी भाषी साहित्यकारों कलाकारों संस्कृति कर्मियों को सम्मानित करती हैं।
  यह सम्मान अब तक डॉ रोमा चटर्जी चंद्रशेखर सैन गुप्ता पद्मा बनर्जी गीता गीत डॉ इला घोष, मानिक तामस्कर आशा जड़े शरद महाजन सुधा पंडित अविनाश कस्तूरे रत्ना मुंजे पंजाबी काजल मानेक गुजराती , सरदार रतन सिंह गुरुनाम सिंह रील , कमलेश सूद हरवंश सिंह चकरेल , छाया मोदीराज डी वी राव नरेंद्र भूपेंद्र कुमार दवे अमृत लाल वेगड़ रजनी कांत यादव चंद्रभान अनाड़ी ज्योति मंगलनी ।
  हास्य कलाकार के के नायकर कुलकर्णी बंधु स्व हेमंत जी एवं श्री दत्तात्रेय को मराठी रजनी कांत त्रिवेदी गुजराती आदि को सम्मानित किया गया है। 
उषा देवी मित्रा हिंदी और बांग्ला साहित्य की एक ऐसी साहित्यकार थीं, जिन्होंने अपनी लेखनी और सामाजिक कार्यों से समाज में सकारात्मक बदलाव लाने का प्रयास किया। उनकी रचनाएँ नारी जीवन की जटिलताओं और सामाजिक मुद्दों को उजागर करती हैं। 

मंगलवार, 10 जून 2025

2022 में हर 32 घंटे में एक पति की हत्या उसकी पत्नी द्वारा हुई ?


1 भारत में यौनिक स्वेच्छाचारिता और दांपत्य हत्याएँ: 2024-2025 के प्रमुख मामले और सामाजिक प्रभाव
2 भारत में यौनिक स्वेच्छाचारिता से जुड़ी पति हत्याओं का ट्रेंड क्या है? 2024 और 2025 के प्रमुख मामलों, जैसे सोनम रघुवंशी और अंजलि कुशवाहा, के साथ जानें सामाजिक और पारिवारिक कारक।)
  भाग 1: दांपत्य जीवन में यौनिक स्वेच्छाचारिता और अपराध का उदयआज के हमारे पॉडकास्ट में आपका स्वागत है। हम चर्चा करेंगे कि भारत में दांपत्य जीवन में यौनिक स्वेच्छाचारिता के कारण महिलाओं द्वारा किए गए अपराध, विशेष रूप से पति हत्याएँ, किस तरह सामाजिक और पारिवारिक व्यवस्था को प्रभावित कर रहे हैं।हाल ही में मेघालय में सोनम रघुवंशी और राजा रघुवंशी की हत्या की घटना ने देशभर में सनसनी मचा दी। यह मामला न केवल प्रेम प्रसंग से जुड़ा है, बल्कि खराब पेरेंटिंग और सामाजिक मूल्यों में कमी को भी उजागर करता है।
पेरेंटिंग की भूमिका:
अच्छी पेरेंटिंग बच्चों को सही और गलत का भेद सिखाती है। सोनम के मामले में, यह स्पष्ट है कि उनकी परवरिश में कहीं न कहीं कमी रही, जिसने उन्हें गलत रास्ते पर ले गया। माता-पिता को अपने बच्चों के साथ खुला संवाद करना चाहिए और उन्हें नैतिक मूल्यों से जोड़ना चाहिए।
भाग 2: डिजिटल युग और वर्चुअल फंतासी का प्रभावमोबाइल और सोशल मीडिया आज हमारी सबसे बड़ी कमजोरी बन चुके हैं। बच्चे और युवा डिजिटल दुनिया की चकाचौंध में खो रहे हैं। वर्चुअल फंतासी और रोमांच की तलाश अक्सर प्रेम और उन्माद की ओर ले जाती है, जो अपराध का कारण बन सकती है।उदाहरण: सोशल मीडिया पर प्रेम प्रसंग शुरू होने से कई युवा और प्रौढ़ अनैतिक रिश्तों में फंस रहे हैं, जो हिंसक परिणामों की ओर ले जाता है।
भाग 3: प्रेम और यौनिक उन्माद: अपराध का रास्ताप्रेम एक स्वाभाविक भावना है, लेकिन जब यह दैहिक लालसा और उन्माद में बदल जाता है, तो यह अपराधों को जन्म देता है। भारत में किशोरों और युवाओं में यौनिकता के विकृत स्वरूप को रोकने में अभिभावक अक्सर असफल हो रहे हैं।सामाजिक चुनौती:किशोरों और युवाओं में गलत यौनिक व्यवहार बढ़ रहा है।प्रौढ़ महिलाएँ भी प्रेम प्रसंगों के कारण हिंसक कदम उठा रही हैं।
भाग 4: दांपत्य जीवन की चुनौतियाँ और पति हत्याएँदांपत्य जीवन अब एक जटिल चुनौती बन चुका है। 2024 और 2025 में कई ऐसी घटनाएँ सामने आईं, जिनमें महिलाओं ने अपने प्रेमियों के साथ मिलकर अपने पतियों की हत्या की।
गैर-आधिकारिक दावा: सामाजिक कार्यकर्ता दीपिका नारायण भारद्वाज के अनुसार, 2022 में हर 32 घंटे में एक पति की हत्या उसकी पत्नी द्वारा हुई। यह दावा सत्यापित नहीं है, लेकिन 2024 और 2025 में भी ऐसे मामले प्रासंगिक रहे।
भाग 5: 2024 और 2025 के प्रमुख मामले 
   2024 और 2025 में यौनिकता के उन्माद के कारण पति हत्याओं के कुछ प्रमुख मामले दिए गए हैं:
  1. सोनम रघुवंशी (मेघालय, मई 2024): सोनम ने अपने प्रेमी के साथ मिलकर पति राजा रघुवंशी की हनीमून के दौरान हत्या की। हत्या के लिए सुपारी देने की संभावना जताई गई।
2.अंजलि कुशवाहा (ग्वालियर, सितंबर 2024): अंजलि ने प्रेमी गौरव और मौसेरे भाई के साथ मिलकर पति लोकेंद्र की हत्या की और इसे प्राकृतिक मौत दिखाने की कोशिश की।
3.मुस्कान रस्तोगी (मेरठ, मार्च 2025): मुस्कान और प्रेमी साहिल शुक्ला ने पति सौरभ राजपूत की हत्या की, शव को सीमेंट ड्रम में छिपाया।
4.पारुल (बिजनौर, मार्च 2025): पारुल ने प्रेमियों के साथ मिलकर पति मकेंद्र की हत्या की, क्योंकि मकेंद्र ने उनकी अश्लील वीडियो देखी थी।
5.गोपाली (जयपुर, अप्रैल 2025): गोपाली ने प्रेमी के साथ पति की हत्या की और शव को जलाने की कोशिश की।
6.प्रगति (औरैया, 2025): प्रगति ने शादी के 15 दिन बाद प्रेमी अनुराग के साथ मिलकर पति दिलीप की हत्या के लिए सुपारी दी।
7.प्रियंका (गाजियाबाद, मई 2025): प्रियंका ने प्रेमी रिंकू के साथ पति संजय की हत्या की।
8.नाबालिग किशोरी (जबलपुर, 2023): एक नाबालिग ने प्रेमी के साथ मिलकर अपने पिता की हत्या की।
सामाजिक प्रभाव: ये घटनाएँ सामाजिक व्यवस्था पर नकारात्मक असर डाल रही हैं। राष्ट्रीय अपराध रिकॉर्ड ब्यूरो (NCRB) में इनके लिए अलग डेटा नहीं है, लेकिन ये मामले समाज में नैतिक और पारिवारिक मूल्यों पर सवाल उठाते हैं।
भाग 6: 
निष्कर्ष और समाधान
    भारत में यौनिक स्वेच्छाचारिता और दांपत्य हत्याएँ एक गंभीर सामाजिक मुद्दा बन चुके हैं। समाज एक विकृत दौर से गुजर रहा है, और इसके लिए निम्नलिखित कदम उठाए जा सकते हैं:
1.बेहतर पेरेंटिंग: 
माता-पिता को बच्चों को नैतिक शिक्षा और संवाद का महत्व सिखाना चाहिए।डिजिटल जागरूकता: सोशल मीडिया और मोबाइल के दुरुपयोग को रोकने के लिए जागरूकता बढ़ानी होगी।
2.कानूनी और सामाजिक सुधार: वैवाहिक विवादों को सुलझाने के लिए परामर्श और कानूनी सहायता को बढ़ावा देना चाहिए।मित्रों, यह जानकारी दुखद है, लेकिन हमें वास्तविकता को स्वीकार कर इसके समाधान की दिशा में काम करना होगा।
3. महिलाओं द्वारा किए गए अपराधों का पृथक से आंकलन एवं विश्लेषण करना। पोर्न साइट को पूर्ण रूप से प्रतिबंधित करना।
4. बेमेल विवाहों को रोकना 
5. लिवइन रिश्तों को आपराधिक माना जाना तथा उसे अधिकारों से वंचित करना।

ad

कुल पेज दृश्य